M. A. Hameed's Urdu writings

Sunday, September 02, 2012

ناطقہ سر بگریباں ہے، اسے کیا کہیئے؟

جج، وکیل، صحافی، تجزیہ کار، سب مل کر ارسلان افتخار کے سادہ سے کیس کو مہینوں میں بھی سمجھ نہیں پائے، ہمیں کیا سمجھائیں گے، اور کسی نتیجہ پر کیا پہنچیں گے۔ آئیں، اس "کیس" کے بارے میں سوالوں کے جواب ہم خود ہی تلاش کریں۔
حقائق کیا ہیں؟ جائداد کی خریدوفروخت سے ارب پتی بننے والے ملک ریاض کے داماد سلمان نے، جو برتانوی شہری ہے، ارسلان کو انگلستان میں پیسے دیئے۔ اس نے اپنے کریڈٹ کارڈ سے ارسلان اور اس کے کنبہ کے افراد کے برتانیہ کے دوروں کے اخراجات بھی ادا کیئے۔ بقول ملک ریاض، ارسلان نے تین کروڑ سے زیادہ روپے یہ کہہ کر اینٹھ لیئَے کہ سپریم کورٹ میں اس کے خلاف زیرسماعت مقدموں میں فیصلے اس کے حق میں کرا دیئے جائیں گے۔ لیکن کوئی فیصلہ اس کے حق میں نہ ہوا۔
جرم کیا ہے؟ اگر کوئی برتانوی شہری کسی غیرملکی کو اپنی مرضی سے پیسے دے تو یہ کوئی جرم نہیں۔ اگر وہ شہری الزام لگائے کہ اسے بلیک میل کیا گیا ہے یا جبری اینٹھے گئے ہیں تو اسے مقدمہ درج کرانا ہوگا اور عدالت میں دعوی ثابت کرنا ہوگا۔ سلمان نے نہ کوئی الزام لگایا، نہ مقدمہ درج کرایا۔ بلکہ اس نے تو اس بارے میں کچھ بھی نہیں کہا۔
وقوعہ کہاں ہوا؟ برتانیہ میں۔ پاکستان میں کہیں بھی کوئی لین دین نہیں ہوا۔
ملک ریاض کا کیا رول ہے؟ اس نے کچھ صحافیوں کے ذریعہ الزام لگایا کہ ارسلان  نے بلیک میل کر کے یا دھوکہ دے کر پیسے اینٹھے۔ بعد میں اس نے نیوز کانفرنس میں اور دنیا نیوز پر انٹرویو میں الزامات دہرائے۔ اس نے نہ خود پیسے دینے کا دعوی کیا، نہ کوئی مقدمہ درج کرایا۔ اس نے ارسلان سے پیسوں کی واپسی کا بھی مطالبہ نہیں کیا۔
ارسلان نے کیا کیا؟ کچھ بھی نہیں۔ اس نے نہ ملک ریاض کو قانونی نوٹس دیا کہ الزامات واپس لے، نہ ہتک عزت کا دعوی دائر کیا کہ اس پر جھوٹے الزام لگا کر اسے بدنام کیا گیا ہے۔ نہ اس نے کسی قسم کی اور کوئی کاروائی کی۔
چیف جسٹس نے کیا کیا؟ انھوں نے ایسے "کیس" کا ازخود نوٹس لے لیا، جو نہ کہیں درج ہوا، نہ جس کا مدعی تھا اور نہ مدعاعلیہ، اور نہ جس میں کسی قانون کی خلاف ورزی ہوئی۔ البتہ بھری عدالت میں وہ اپنی پاکی داماں کی حکائت بڑھا کر بیان کرتے رہے۔ وہ کیس بھی خود ہی سننا چاہتے تھے۔ جب کہا گیا کہ انھیں ایسا کیس نہیں سننا چاہیئے، جس میں ان کا اپنا بیٹا ملوث ہو تو انھوں نے کیس دوسرے ججوں کے سپرد کر دیا، جنھوں نے اٹارنی جنرل کو انکوائری کا حکم دے دیا۔ اس میں ملک ریاض کو بھی ملوث کر لیا گیا، حالانکہ اسے کسی نے ملزم قرار نہیں دیا تھا۔ جب اس کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہیں ہوا تو انکوائری کیسی؟ پھر دو افراد کے درمیان لین دین کے نجی معاملہ کی انکوائری نیب کر ہی نہیں سکتی۔ یہ کام عدالتوں کا ہے۔
تفتیش کیوں تبدیل کی گئی؟ ارسلان نے اعتراض کیا کہ اٹارنی جنرل کی ہدائت پر نیب نے جو انکوائری ٹیم بنائی اس کے ارکان پر اسے بھروسہ نہیں کیونکہ ان کے ملک ریاض سے تعلقات ہیں۔ بجائے اس کے کہ نیب سے دوسری ٹیم بنانے کا کہا جاتا، عدالت نے انکوائری وفاقی ٹیکس محتسب شعیب سڈل کے سپرد کر دی، بغیر یہ دیکھے کہ ان کا اب پولیس سے کوئی تعلق نہیں اور وفاقی محتسب، آڈیٹر جنرل، وغیرہ، جیسے آئینی عہدہ پر فائز ہونے کی بنا پر انھیں کوئی عدالت غیرمتعلقہ کام کے لیئے حکم نہیں دے سکتی۔ ویسے بھی انکوائری کے لیئے کمشن بنانے کا قانونی اختیار وفاقی حکومت کو ہے۔
نتیجہ کیا ہوگا؟ شعیب سڈل یا کوئی اور انکوائری کر کے صرف یہ کہے گا کہ ملک ریاض کے الزامات کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ ثبوت کیسے ملے گا جب ملک ریاض نے خود پیسے دینے کا دعوی کیا ہی نہیں؟ سلمان سے تفتیش ہو نہیں سکتی اور نہ اس کے بینک کھاتہ کی تفصیلات لی جا سکتی ہیں، کیونکہ وہ برتانوی شہری ہے اور اس کے خلاف برتانوی پولیس ہی تفتیش کر سکتی ہے، وہ بھی مقدمہ درج ہونے کے بعد۔
تو پھر؟ مقدمہ داخل دفتر ہو جائے گا، جس کا سرے سے کوئی وجود ہی نہ تھا۔ ارسلان دعوی کرے گا کہ اس کی بے گناہی ثابت ہو گئی ہے۔ البتہ ملک ریاض کو توہین عدالت میں سزا ہو سکتی ہے، اگر اس کا پیسہ اور تعلقات کام نہ آئے۔ اور جو الزامات سینیٹر فیصل رضا عابدی ٹیلی ویژن چینلوں پر شعلہ بیانی سے باپ بیٹے پر لگا رہا ہے، ان کی کوئی انکوائری نہیں ہوگی اور نہ اسے توہین عدالت کے الزام میں بلایا جائے گا۔ اس کی آواز صدا بصحرا ثابت ہوگی۔ کم از کم فی الحال۔
رہا انصاف، تو بھٹو دور کے پنجاب اسمبلی کے سپیکر، شیخ رفیق احمد، نے اسمبلی کی سیڑھیوں پر ایک عورت کی انصاف کے لیئے فریاد سن کر کہا تھا، "انصاف اگلے جہان ملے گا، اس دنیا میں نہیں۔"

میڈیا کی عمران خاں کو ٹھبی پہ ٹھبی

پندرہ سال تک میڈیا نے عمران خاں اور ان کی پارٹی کی طرف توجہ نہ کی۔ پھر لاہور میں جلسہ ہوا، جسے پرانے وقتوں کی زبان میں "ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر" کہا جا سکتا تھا۔ میڈِیا جاگا اور واہ واہ کے ڈونگرے برسانے لگا۔
عمران خان کی پارٹی میں اگر کوئی میڈیا شناس تھے تو انھیں سمجھانا چاہیئے تھا کہ میڈیا کوفہ والوں کی طرح کسی سے وفا نہیں کیا کرتا۔ اگر ہڈی ڈالتے رہیں گے تو دم ہلاتا رہے گا۔ جونھی کسی اور نے گود لے لیا تو آنکھیں پھیرنے میں دیر نہیں لگاتا۔ خاں صاحب کو خریدنے کا ہنر نہیں آتا تھا اور نہ وہ اسے اچھا سمجھتے تھے۔ چنانچہ جلد ہی میڈیا کچھ عادت سے مجبور ہو کر اور کچھ خاں صاحب کے مخالفوں کے اکسانے پر انھیں ٹھبی پہ ٹھبی دینے لگا۔ (کسی اپنے دھیان چلتے شخص کے پائوں کے آگے اپنا پائوں رکھنے کو ٹھبی دینا کہتے ہے۔ اگر وہ سنبھل نہ سکے تو گر جاتا ہے۔)
خاں صاحب اور ان کے ساتھیوں کو یاد ہونا چاہیئے تھا کہ ماضی قریب میں پرویز مشرف کے ساتھ کیا ہوا۔ جب ستمبر 2001 میں صحافیوں کو بلا کر صورت حال بتائی تو سب نے ہاں میں ہاں ملائی کہ افغانستان پر حملہ کے لیئے امریکہ کا ساتھ دینا ضروری ہے۔ لیکن پھر مخالف ہو گئے۔ اسی طرح، جب لال مسجد کے خلاف کاروائی میں تاخیر ہوئی تو روز طعنے ملتے کہ حکومت اپنے صدر مقام میں بھی کھلم کھلا نافرمانی پر قابو نہیں پا رہی۔ جب کاروائی ہوئی تو واویلا شروع کر دیا کہ بڑا ظلم ہو رہا ہے۔
میڈیا نے خاں صاحب کو پہلی ٹھبی بار بار یہ پوچھ کر دی کہ ان کا ایجنڈہ کیا ہے۔ نیازی خان میں اتنی بے نیازی تھی کہ 15 سال تک نہ رکن سازی کی، نہ پارٹی کی تنظیم کی اور نہ ہی ایجنڈہ تیار کیا کہ اقتدار ملا تو کیا کیا کام کریں گے۔ غالبا ان کی سوچ تھی کہ جب وزیراعظم یا صدر بن جائیں گے تو ایجنڈہ بھی طے کر لیں گے۔ جلدی کیا ہے۔ اب جو ہڑبڑا کر جاگے تو بتانے کو پروگرام کیا، خاکہ تک نہ تھا، سوائے اس کے کہ سب کو انصاف دلائیِں گے۔ یہ بھی واضح نہ کیا کہ کس طرح۔ ایسے ہی موقع پر کہتے ہیں، وہڑے آئی جنج، ونھو کڑی دے کن۔ صحن میں بارات آ کر بیٹھی ہے اور دلہن کے کان چھیدے جا رہے ہیں، جو بچپن میں کرنے کا کام تھا۔
جب خاں صاحب کچھ بتاتے تو بات غیرواضح ہوتی یا کسی اور بات سے متضاد۔ چاہیئے یہ تھا کہ کہتے ابھی ایجنڈہ بتانے کا وقت نہِیں۔ الیکشن کا اعلان ہوگا تو تفصیل سے بتائیں گے۔ صرف عام سی بات کرتے کہ ہر شعبہ میں انصاف دلائیں گے۔ اس طرح روز روز کے سوالوں سے نجات مل جاتی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے بھی تو صرف "روٹی، کپڑہ، مکان" کا نعرہ لگایا تھا۔ یہ تو اقتدار میں آنے کے بعد بھی نہ بتایا کہ کب اور کیسے دیں گے۔
میڈیا میں مخالفین کے زرخرید افراد نے دوسری ٹھبی لگائی کہ خاں صاحب کے ساتھ تو انتخاب جیتنے والے لوگ ہی نہیں، الیکشن کیسے جیتیں گے۔ خاں صاحب کو پوچھنا چاہیئے تھا کہ بھٹو نے جب پارٹی بنائی اور الیکشن لڑا تو اس کے پاس کتنے لوگ تھے جو اپنے بل بوتے پر الیکش جیت لیتے؟ اس کے پاس تو بیشتر حلقوں میں سرے سے امیدوار ہی نہ تھے۔ جس نے درخاست کی، اسے ٹکٹ دے دیا، چاہے یونین کونسل کا الیکشن لڑنے کے قابل بھی نہ ہو۔ جب اپنے طور پر الیکشن جیتنے والے شامل ہوئے تو انھوں نے 1977 کے الیکشن میں وہ گل کھلائے کہ سب کچھ ڈوب گیا۔
میڈیا کے منہ میں دو دھاری زبان ہوتی ہے۔ جب دوسری پارٹیوں سے سرکردہ افراد پارٹی میں شامل ہونے لگے تو کہنا شروع کر دیا کہ یہ پرانے لوگ تو موجودہ نظام کا حصہ رہے ہیں؛ یہ کیسے انقلاب لائیں گے۔ پھر جب نووارد حسب عادت پارٹی کے اندر جوڑتوڑ شروع کرنے اور پرانے ارکان کو پیچھے دھکیلنے لگے تو خاں صاحب کے لیئے نئے مسائل پیدا ہو گئے۔
جب مختلف عہدوں کے لیئے نامزدگیاں ہونے لگیں تو اعتراض ہوا کہ یہ تو وہی غیرجمہوری طریقہ ہے، جو دوسری پارٹیاں اپنائے ہوئے ہیں۔ یہ اعتراض پیدا ہی نہ ہوتا اگر خاں صاحب پارٹی میں نئے آنے والوں سے کہتے کہ الیکشن میں آزاد حیثیت سے کامیاب ہو کر آئیں تو پارٹی میں شمولیت کر سکیں گے۔ اس کے بعد عہدہ بھی پارٹی میں انتخابات کے نتیجہ میں ملے گا، نامزدگی سے نہیں۔
کئی ٹھبیاں ابھی بھی لگ رہی ہیں۔ دوہری شہریت والوں کے الیکشن لڑنے کے سوال پر انھوں نے یہ سوچ کر حمائت کر دی کہ بیرون ملک حامی ناراض نہ ہوجائیں۔ لیکن جب ملک کے اندر دوہری شہریت والوں کی مخالفت شدید ہو گئی تو پوزیشن بدل لی۔ آصولی موقف یہ ہونا چاہیئے تھا کہ اول تو دہری شہریت کسی کو ملنی ہی نہیں چاہیئے۔ جو کسی دوسرے ملک کا شہری بنتا ہے تو ذاتی فائدہ کے لیئے، نہ کہ ملک کی خاطر۔ غیرملکی کی حیثیت سے وہ یہاں کاروبار کرے، سرمایہ کاری کرے اور شوکت خانم ہسپتال جیسے فلاحی اداروں کی مدد کرے۔ لیکن اسے ملک کی حکومت میں دخل کی اجازت ہرگز نہیں ہونی چاہیئے۔ اسے نہ ووٹ کا حق ملنا چاہیئے اور نہ الیکشن لڑنے کا۔ بلکہ اسے کسی سرکاری عہدہ پر بھی مقرر نہیں کرنا چاہیئے، تاکہ وہ غیرملکیوں کو کسی طرح ناجائز فائدہ نہ پہنچا سکے۔ اگر مصلحت کے تحت اصول قربان کریں گے تو عوام کی نظروں سے گر جائیں گے۔
مزید ٹھبیاں بھی لگ سکتی ہیں۔ مثلا، خاں صاحب کہتے ہیں کہ نصاب تعلیم یکساں کر دیں گے لیکن یہ نہیں کہتے کہ صرف اردو ذریعہ تعلیم ہوگی۔ نہ ہی انھوں نے کبھی واضح کیا ہے کہ سرکاری زبان صرف اردو ہوگی۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ ان براہمنوں کے ساتھ ہیں، جو ذریعہ تعلیم اور دفتری زبان انگریزی رکھنا چاہتے ہیں تاکہ ان کا اقتدار برقرار رہے۔ جب سوال کیا جائے گا کہ قومی زبان کو قوم کی زبان بنانے کی کیوں حمائت نہیں کرتے تو عمران خاں کیا جواب دیں گے؟
صدر یا وزیراعظم بن جانا کوئی بڑی بات نہیں۔ وہ تو زرداری اور پرویز اشرف بھی بن گئے۔ اصل سوال یہ ہے کہ آپ کرنا کیا چاہتے ہیں۔ اگر کچے پکے مشوروں پر چلیں گے تو کبھی کچھ منہ سے نکلے گا اور کبھی کچھ۔ اور، امریکہ اور برتانیہ کی حمائت کے طالب ہوں گے تو اسی صف میں کھڑے ہو جائیں گے، جہاں اب تک کے حکمران کھڑے ہیں۔ سطحی سوچ کے بنے بنائے منصوبوں کو اپنائیں گے تو جلد ہی عوام کی امیدوں پر پانی پھیر دیں گے۔
سیاست عمل سے ہوتی ہے، رد عمل سے نہیں۔ اگر میڈیا اور مخالفوں کی باتوں پر رد عمل ہی ظاہر کرتے رہیں گے تو بات نہیں بنے گی۔ اگر کامیاب ہونا ہے تو آپ کا ان سے چار قدم آگے ہونا لازمی ہے۔ سوچ سمجھ کر طے کریں کہ الیکشن میں اکثریت ملی تو کیا کریں گے، مخلوط حکومت میں شامل ہونا پڑا تو اپنا ایجنڈہ کیسے آگے بڑھائیں گے اور اگر اقتدار سے باہر رہنا پڑا تو سب کچھ چھوڑ چھاڑ دیں گے یا اس سے اگلے بلکہ اس سے بھی اگلے الیکشن تک میدان میں رہیں گے۔ اپنے ساتھیوں اور حامیوں کو صاف گوئی سے بتائیں کہ دس پندرہ سال کے لیئے آپ کا کیا پروگرام ہے۔
اگر سیاست میں کچھ کرنا ہے تو ڈھنگ سے کریں۔ ورنہ اگلے الیکشن کے بعد وہی کریں جس میں آپ کا دل لگتا ہے۔ شوکت خانم جیسے کئی ہسپتال اور نمل جیسی کئی جامعات بنائیں۔ آُپ کا نام اور آپ کا کام ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ 

Friday, August 17, 2012

بجلی کا بحران کیوں ہے اور کیسے ختم ہو سکتا ہے

پہلے صوبہ پنجاب سے اور اب صوبہ خیبر سے مطالبہ ہوا ہے کہ بجلی کی تقسیم صوبوں کو دے دی جائے، گویا صوبے زیادہ اہل اور دیانتدار ہیں۔ اول تو مال حرام کھانے والے "راجہ رینٹل" جیسے وزیر مانیں گے ہی نہیں۔ اگر کسی نہ کسی طرح مطالبہ مان بھی لیا گیا تو ہم موجودہ بحران کو "بجلی کا روشن دور" کہا کریں گے۔
ہندوستان کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ وہاں بجلی کی تقسیم صوبوں کے پاس ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ وزیر اعلا کبھی کسی طبقہ کو بجلی مفت دے دیتے ہیں، کبھی کسی کے بقایا جات معاف کر دیتے ہیں اور کبھی کسی سے وصولی روک دیتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے صوبوں کے بجلی بورڈ خسارہ میں چل رہے ہیں اور کوئی سرمایہ کار مرکزی حکومت کی گارنٹی کے بغیر ان کے لیئے بجلی گھر لگانے کو تیار نہیں۔ حال ہی میں صوبوں کی ایک دوسرے کی بجلی چوری کرنے کی بنا پر سسٹم ہی بیٹھ گیا، جس سے 600 ملین لوگ بجلی سے محروم ہو گئے۔ یہ تاریخ کا سب سے بڑا بلیک آئوٹ تھا۔ چند سال پہلے بجلی کے مرکزی وزیر نے کہا تھا، "میری زندگی میں تو لوڈشیڈنگ ختم نہیں ہوگی۔"
ہمیں بھی صوبائی کنٹرول کا تجربہ ہے۔ چند سال پہلے بلوچستان میں باغات کے لیئے بجلی مفت کر دی گئی۔ مالکان دن رات ٹیوب ویل چلاتے، چاہے پانی ضرورت پوری ہونے کے بعد ریت میں جاتا رہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ زیرزمین پانی کی سطح اتنی گر گئی کہ پانی نکالنا ممکن نہ رہا اور باغات سوکھ کر ختم ہو گئے۔
بجلی کی تقسیم صوبوں کے حوالہ کرنے کا مطالبہ اسی قسم کی لوٹ مار کرنے کا منصوبہ ہے، جیسی چار سالوں سے مرکز میں ہو رہی ہے۔ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے سربراہ میرٹ کی بجائے ذاتی مصلحتوں کے تحت مقرر ہونگے۔ پارٹی لیڈروں اور ان کے چہیتوں کو بجلی چوری کی کھلی چھٹی ہوگی۔ ان سے وصولی بھی نہیں ہوگی اور نہ نادہندگی پر بجلی کٹے گی۔ بجلی پیدا کرنے والوں سے بھاری رشوت لے کر مہنگا ریٹ دیا جائے گا۔ سیاسی نقصان کے ڈر سے بجلی کا ریٹ نہیں بڑھایا جائے گا۔ الیکشن کے موقع پر کاشت کاروں وغیرہ کے بل معاف کر دیئے جائیں گے۔ سندھ کی مثال لیں۔ کیا وہاں کی صوبائی حکومت اس قابل ہے کہ کراچی، حیدراباد، سکھر، وغیرہ، میں بھاری بجلی چوری ختم کر سکے؟ کیا صوبہ خیبر کی حکومت فاٹآ سے بل وصول کر سکتی ہے؟ اسی طرح کیا بلوچستان میں وصولی ہو سکے گی؟ جب تقسیم کار کمپنیاں بھاری خسارہ کے بوجھ تلے دب جائیں گی تو صوبے مرکز سے امداد مانگنے لگیں گے۔
ہماری داستان الم بے نظیر کے پہلے دور سے شروع ہوتی ہے جب بھاری رشوت کے عوض نئے نجی بجلی گھر لگنے لگے۔ اس وقت واپڈا کے ایک افسر نے کہا، "جن شرطوں پر اجازت دی گئی ہے اس کے بعد اگر دس روپے فی یونٹ پر بجلی ملتی رہی تو بھی سمجھیں کہ سستی ہے۔" ان دنوں بجلی بیس بائیس روپے یونٹ پر حکومت کو مل رہی ہے۔ پھر بھی بار بار ریٹ بڑھانے کے باوجود تقریبا آدھہ بوجھ اسے اٹھانا پڑ رہا ہے۔
نجی بجلی گھروں کے لیئے بڑی آسانیاں پیدا کی گئیں۔ ٘مثلا، معاہدہ میں لکھا گیا کہ بجلی گھر فرنس آئل کے لیئے صرف تین ہزار روپے فی ٹن اور باقی حکومت دے گی۔ آج کل تیل کا ریٹ 70 ہزار روپے کے قریب ہے۔ حکومت پر قرضہ بے تہاشہ کیوں نہ چڑھے؟ پھر واپڈا پر پابندی لگا دی گئی کہ اپنے بجلی گھر نہ لگائے۔ ساتھ ہی کسی بھی ڈیم کے لئے قابل عمل ہونے کی رپورٹ بنانے کا حکم نہ دیا گیا۔
کالاباغ ڈیم سیاست کاروں کی ملک دشمنی کی بہت بڑی مثال ہے۔ صدر ضیاء الحق 1985 میں تعمیر کا حکم دینے والے تھے کہ جنرل فضل حق نے، جسے سیاست کا شوق چرایا، سستی شہرت کے لئے اس کی مخالفت کر دی۔ معاملہ محمد خاں جونیجو پر چھوڑ دیا گیا۔ غیرمنتخب وزیراعظم ہوتے ہوئے وہ کرسی بچانے ہی میں لگے رہے۔ بے نظیر کو ویسے ہی ہر اس منصوبہ سے نفرت تھی، جس سے فائدہ پنجاب کو ہو۔ (لاہور ہوائی اڈہ کے ٹرمینل اور موٹروے کی تعمیر روک دی گئی۔) پھر کالاباغ بننے سے نجی بجلی گھر کیسے مہنگی بجلی بیچ سکتے اور حکمرانوں کو بھاری رشوت دیتے؟ نواز شریف نے بھی دو تہائی اکثریت کے باوجود کالا باغ نہیں بنایا۔ وجہ وہی رشوت تھی، نہ کہ دوسرے صوبوں کی مخالفت۔
پرویز مشرف نے آتے ہی تعمیر شروع کرانی چاہی لیکن سندھ میں دریائوں کے کچہ سے فائدہ اٹھانے والے وڈیروں، پنجاب سے نفرت کی سیاست کرنے والے انتہا پسنوں، میڈیا میں ہندوستانی ایجنٹوں، اور نجی بجلی گھروں کے مالکوں نے مل کر اتنا ہنگامہ کیا کہ وہ رک گیا۔ پھر اس نے سندھ کے لوگوں کا اعتماد بحال کرنے کے لیئے کئی بڑے منصوبے شروع کرائے۔ بلوچستان کے لیئے 400 کلومیٹر لمبی کچھی نہر تعمیر کرنے کا حکم دیا، جس سے تقریبا تین لاکھ ہیکٹر اراضی سیراب ہوگی۔ پھر حالات بہتر ہونے پر 2006 کے شروع میں واپڈا نے غیرملکی ٹھیکیداروں کو اطلاع دی کہ ستمبر میں کالاباغ ڈیم کے لیئے ٹینڈر طلب کیئے جائیں گے۔
ہماری بدقسمتی کہ سیاست ایک بار پھر رکاوٹ بن گئی۔ گجرات کے چودھریوں نے پرویز مشرف سے کہا کہ اگلے سال الیکشن میں ان کی پارٹی کو نقصان ہو سکتا ہے۔ اس لیئے کالاباغ بند کی تعمیر الیکشن کے بعد تک ملتوی کر دی جائے۔ اگر مشرف کمزوری نہ دکھاتا تو آج ڈیم بن چکا ہوتا اور چودھری بھی اس کا کریڈٹ لے رہے ہوتے۔ بہرحال، آج لوڈشیڈنگ نہ ہو رہی ہوتی۔
زرداری حکومت کی نیت پہلے دن سے ہی خراب تھی۔ راجہ پرویز اشرف نے مئی 2008 میں کہا کہ واپڈا کے بند بجلی گھروں کو چالو کرنے میں سال ڈیڑھ لگ جائے گا۔اتنی دیر انتظار نہیں کیا جا سکتا۔ بس کرایہ کے (رینٹل) بجلی گھر ہمارے لیئے امرت دھارہ (ہر بیماری کا علاج) ہیں۔ راجہ نے بار بار لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کے وعدے کیِئے جو محبوب کے وعدے ثابت ہوئے۔
کالاباغ ڈیم نہ بنانے کے لیئے عذر لنگ کی بیساکھی تین صوبوں کی اسمبلیوں کی مخالفانہ قراردادیں ہیں۔ جب پارلی٘منٹ کی قراردادیں حکومت کے لیئے ردی کاغذ ہیں (جیسے ڈرون حملوں کے بارے میں) تو صوبائی قراردادوں کی کیا وقعت ہے؟ وہ بھی پتہ نہیں منظوری کے وقت کتنے ارکان حاضر تھے۔ پھر کیا کسی نے وارسک، راول، منگلا، تربیلا ڈیم، وغیرہ کے لیئے صوبوں سے یا سیاسی جماعتوں سے پوچھا؟ اب بھی دیامر بھاشہ کے لیئے کسی صوبے سے منظوری نہیں لی گئی، حالانکہ یہ بھی کالاباغ کی طرح سندھ دریا پر ہی بنے گا اور اس میں بھی اسی دریا کا پانی ذخیرہ کیا جائے گا۔ دل حرامی تے بہانے ڈھیر۔ (دل نہ مانے تو بے شمار بہانے بنا لیئے جاتے ہیں۔)
نجات کا رستہ بحران سے ہمیشہ کے لیئے کیسے نکلا جا سکتا ہے؟ طریقہ کوئی مشکل نہیں۔ اس وقت بجلی کی تقسیم کے لیئے نو نیم خود مختار کمپنیاں ہیں۔ انھیں پبلک لیمٹڈ کمپنیاں بنا دیا جائے۔ سب غیرمنافع بخش ہوں، یعنی منافع حصہ داروں میں تقسیم نہ کریں۔ اس طرح جو کمائیں گی بہتری کے لیئے استعمال کریں گی۔ حصہ دار بھی منافع کے خاہشمند عام سرمایہ دار نہ ہوں بلکہ صرف کمپنی سے بجلی کا کنیکشن لینے والے ہوں۔ ہر ایک صرف ایک حصہ خریدے تاکہ امیر زیادہ حصص خرید کر کمپنی پر غلبہ حاصل نہ کر سکیں۔
کمپنی کی صدارت کے لیئے وفاقی پبلک سروس کمشن اہل امیدواروں کا انتخاب کر کے ہر کمپنی کو بھیج دے۔ ان کے کوائف بجلی کے بل کے ساتھ تمام حصہ داروں کو دیئے جائیں۔ ساتھ بیلٹ پیپر ہو۔ حصہ دار اس پر اپنی پسند کے امیدوار کو ووٹ دے دیں۔ سب ووٹ ڈاک سے کمپنی کے صدر دفتر پہنچ جائیں۔ جسے سب سے زیادہ ووٹ ملیں وہ کمپنی کا سربراہ بن جائَے۔
کمپنی کے صدر کی دو بڑی ذمہ داریاں ہونگی۔ ایک طرف وہ بجلی پیدا کرنے والوں سے کم سے کم قیمت پر اور اچھی سے اچھی شرطوں پر بجلی خریدے۔ جو سرمایہ کار اسی قیمت پر یا اس سے کم پر بجلی دینے کو تیار ہو، اس سے خریداری کا معاہدہ کر لیا جائے۔ بجلی چاہے وہ گیس سے، پانی سے، ہوا سے یا کوئلہ سے بنائے۔ بجلی کی فروخت کی ضمانت پر سرمایہ کار بینکوں سے قرضہ لے سکے گا۔ موجودہ بجلی گھروں کو بھی تقسیم کار کمپنیون سے الگ الگ معاہدے کرنے ہوں گے۔ یوں مرکزی حکومت کی ذمہ داریاں ختم ہو جائیں گی۔ (یعنی رشوت دے کر کوئی نیا تھرمل یا رینٹل نجلی گھر نہیں لگ سکے گا۔)
دوسری طرف، کمپنی کا صدر بجلی کی تقسیم کا نظام بہتر بنائے گا، واجبات سب سے بروقت وصول کرے گا، چاہے امیر ہو یا وزیر، صعنت کار ہو یا سیاست کار۔ کیونکہ مرکزی یا صوبائی حکومت کے ماتحت نہیں ہوگا۔ اس لیئے بجلی چوری پر موثر کاروائی کرے گا۔ یہ سب کچھ اگر نہیں کرے گا تو اس کی اپنی نوکری خطرہ میں پڑ جائے گی کیونکہ ہر سہ ماہی کے آخر میں کارکردگی رپورٹ بجلی کی بل کے ساتھ حصہ داروں کو بھیجنی ہوگی اور ان سے ہر سال اعتماد کا ووٹ بھی لینا ہوگا۔ غلط کام کرے گا یا ناہلی دکھائے گا تو فارغ ہو جائے گا۔ کسی کی سفارش کام نہیں آئے گی۔
فائدے مجوزہ نظام قائم ہونے کے بعد بے شمار فائدے ہوں گے:
·       بجلی کی تقسیم کی نج کاری ہوجائے گی، جس کا مطالبہ عرصہ سے ہو رہا ہے لیکن یہ کراچی الیکٹرک کمپنی جیسی نج کاری نہیں ہوگی، جس کے مالک عوام کی پروا کیئے بغیر صرف اپنی جیبیں بھرنے میں لگے ہیں۔
·       بجلی استعمال کرنے والے ہی کمپنی کے حصہ دار ہوں۔ اس لیئے انتظامیہ ان کے سامنے جواب دہ ہوگی۔
·       کمپنی کسی کو منافع نہیں دے گی۔ اس طرح بجلی کا ریٹ کم از کم ہوگا۔
·       بجلی میں سیاست کا دخل ختم ہو جائے گا۔
·       بجلی کا ریٹ کم سے کم ہو جائے گا۔
·       صوبوں اور مرکز کی رسہ کشی اور مداخلت ختم ہو جائے گی۔
·       اور لوڈ شیڈنگ ماضی کی ایک تلخ یاد بن کر رہ جائے گی۔

سکھوں کی شناخت امریکہ میں ان کے لیئے وبال بن گئی

امریکہ میں 9/11 کے بعد سکھوں کے لیئے بڑی مشکل پیدا ہو گئی۔ ان کی داڑھی اور پگڑی سے انھیں طالبان سمجھا جانے لگا اور اس بنا پر کئی بار حملے ہوئے۔ ابھی 5 اگست کو ریاست وسکانسن میں ان کے گردوارہ پر کسی انتہا پسند عیسائی نے حملہ کیا اور چھ ہلاک اور بیسیوں زخمی کر دیئے۔
سکھوں کو مسلمان سمجھنا نئی بات نہیں۔ انگریزوں نے جب ریلوے کو ایران کے اندر تک توسیع دی تو آخری سٹیشن پر بہت سے ملازم کیش دھاری (داڑھی اور پگڑی والے) سکھ تھے۔ ایرانی سمجھے کہ یہ بڑے زاہد لوگ ہیں۔ چنانچہ وہ کہتے، "زاہدان آمدہ اند" (زاہد لوگ آئے ہیں)۔ انھی کی وجہ سے شہر، جس کا نام دزرد آب (پانی چور) تھا، زاہدان کہلانے لگا۔
جنوبی ایشیا میں ہندوئوں اور مسلمانوں کی ظاہری شناخت صدیوں سے واضح چلی آ رہی تھی۔ سکھوں کے گوروئوں نے اپنے پیروکاروں کی الگ شناخت بنانے کا سوچا۔ چنانچہ انھین "پنج ککارے" پہننے کا حکم دیا گیا، یعنی پانچ اشیا جن کے نام ک سے شروع ہوتے ہیں:
کیش (سر کے بالوں کا جوڑہ)،
کنگھہ (بال سنوارنے کے لیئے)،
کڑہ (کلائی پر)،
کچھہ (انڈرویئر) اور
کرپان (چھوٹی سی تلوار ذاتی حفاظت کے لیئے)۔
اس کے علاوہ تین باتوں پر زور دیا گیا: دستار، گفتار اور کردار۔ خاص طریقہ سے باندھی گئی دستار اس جوڑہ کو بھی چھپاتی ہے، جو بالوں سے بنایا جاتا ہے۔ جوڑہ میں بال اتنے لمبے ہوتے ہیں کہ کھولیں تو گھٹنوں سے نیچے تک چلے جاتے ہیں۔ اتنی لمبائی کی وجہ یہ ہے کہ بالوں کو کبھی بھی لوہا نہ لگانے کا حکم ہے، یعنی قینچی، استرہ، وغیرہ سے جسم کے کسی حصہ کے بال کاٹنا منع ہے۔
الگ شناخت کے لیئے حکم دیا گیا کہ مرد نام کے آخر میں "سنگھ" اور عورتیں "کور" لگایا کریں۔ جب سکھ 1950 کی دہائی میں کثرت سے انگلستان (اور بعد میں امریکہ اور کینیڈہ) میں آباد ہونے لگے تو نام کے آخر میں "سنگھ" ہونے کی بنا پر سنگسب سب کو ایک ہی کنبہ کے فرد سمجھا جانے لگا۔ پھر امریکہ میں درمیانی نام کا صرف پہلا حرف لکھنے کا رواج تھا۔ چنانچہ سکھوں نے "سنگھ" کو تو "ایس" بنا دیا اور آخر میں ذات یا گائوں کا نام لگانے لگے، جیسے پرکاش ایس ڈھلوں، اور مونٹک ایس اہلووالیہ۔
شناخت کا ایک انوکھا طریقہ ایک ریاست کے سکھ راجہ کو سوجھا۔ اس نے کم آمدنی کی بنا پر طے کیا کہ پولیس والوں کو وردی نہ دی جائے۔ اس کی بجائے وہ عام کپڑے پہنا کریں۔ شناخت کے لیئے ہر رینک کے لیئے داڑھی کی لمبائی مخصوص کی گئی۔ یعنی، جتنا بڑا عہدہ، اتنی لمبی داڑھی۔ ایک دن ایک شخص بڑی خوداعتمادی سے ایک تھانہ میں داخل ہوا اور تھانہ دار سے معائنہ کے لیئے مختلف رجسٹر لانے کے لیئے کہا۔ تھانہ دار نے رجسٹر تو پیش کر دیئے لیکن سوچنے لگا کہ یہ کلین شیو شخص کس عہدہ کا افسر ہے۔ آخر ہمت کر کے کہہ ہی دیا، "سر، معافی چاہتا ہوں داڑھی نہ ہونے کی بنا پر میں آُپ کا رینک نہ جان سکا۔" افسر نے جواب دیا، "میں خفیہ والا ہوں۔ ہمارے بالوں کی کم یا زیادہ لمبائی ناف کے نیچے ہوتی ہے۔" 

Wednesday, August 08, 2012

کیا "لاپتہ افراد" واقعی لاپتہ ہیں؟

جبگ/جیو کے حامد میر نے ایک ٹیلی ویژن پروگرام میں کہا کہ میڈیا کے لوگ صرف 10 فی صد سچ بولتے ہیں، میرے سمیت۔ حامد میر ہی "لاپتہ افراد" کے معاملہ میں سب سے زیادہ سرگرم ہیں۔ اس معاملہ میں وہ کتنا سچ بول رہے ہیں؟
"لاپتہ افراد" صرف بلوچستان ہی میں کیوں ہیں؟ بات یہ ہے کہ دوسرے صوبوں میں دہشت گردی ہوتی ہے، جس میں لوگ مرتے ہیں اور زخمی ہوتے ہیں، لاپتہ نہیں ہوتے۔ بلوچستان میں لاپتہ ہونے کی وجوہ میڈیا تلاش نہیں کرتا کیونکہ نہ مالک اس کی اجازت دیتے ہیں، اور نہ انھیں ڈالر دینے والا امریکہ۔
بلوچستان میں نہ حقوق کا مسئلہ ہے اور نہ احساس محرومی کا۔ حقوق کا مسئلہ تو موجودہ حکومت نے 18 ویں ترمیم سے ختم کر دیا۔ صوبوں کو اتنے اختیارات دے دیئے کہ وہ استعمال ہی نہیں کر پاتے۔ انھیں یہاں تک اختیار مل گیا کہ رشوت لے کر درسی کتابوں میں جو چاہیں ملک دشمن مواد شامل کر دیں (جیسے مشرقی پاکستان میں ہوا کرتا تھا) اور اپنی جیبیں بھر کر تیل، گیس اور معدنیات نکالنے کے ٹھیکے جن غیرملکی کمپنیوں کو چاہیں دے دیں۔  
احساس محرومی بھی لوٹ مار کا بہانہ ہے۔ پچھلے سالوں میں سینکڑوں بلین روپے بلوچستان کو دیئے گئے۔ موجودہ حکومت نے صرف اس سال 145 بلین روپے دیئے۔ وہ کہاں گئے؟ صوبہ کی کل آبادی اکیلے ضلع لاہور سے بھی کم ہے لیکن احساس محرومی ہے کہ ختم ہونے ہی میں نہیں آتا۔
دراصل، یہ سب امریکہ کے کہنے پر تراشے گئے بہانے ہیں۔ امریکہ بلوچستان کو علیحدہ کرا کے نیا ملک بنانا چاہتا ہے، جیسے اس نے سوڈان کا جنوبی حصہ کاٹ کر ایک نیا ملک، جنوبی سوڈان، بنوا دیا۔ (سوڈان کا 97 فیصد تیل جنوبی سوڈان سے نکلتا ہے۔) بلوچستان میں تیل، گیس اور معدنیات کے ساتھ امریکہ کے اور کئی مفادات ہیں۔ افغانستان سے نکل کر یہاں بیٹھنا چاہتا ہے، چین کو گوادر سے فائدہ اٹھانے سے روکنا ہے، پاکستان اور ایران کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانا ہے اور آبنائے ہرمز کے دہانے کو کنٹرول کرنا ہے (تاکہ جنگ کی صورت میں دشمنوں کو خلیج فارس سے سعودی عرب، ایران، عراق، کویت وغیرہ سے تیل کی سپلائی روکی جا سکے)۔
چنانچہ امریکہ نے بلوچستان میں اسلم رائیسانی کو وزیر اعلی بنوایا، جسے حکومت سے کوئی دلچسپی نہیں اور جس کا چھوٹا بھائی، لشکری رائیسانی، امریکی مصنف رون سسکنڈ کے مطابق امریکی، برتانوی اور فرانسیسی خفیہ اجنسیوں کا وظیفہ خوار ہے۔ (اب وہ پی پارٹی چھوڑ کر تحریک انصاف میں شامل ہو چکا ہے)۔ ایک کے سوا تمام ارکان اسمبلی کابینہ میں ہیں تاکہ خرابیوں پر کوئی انگلی نہ اٹھائے جبکہ وزیر اعلی سارا وقت اسلام آباد میں رہتا ہے۔ (اس کی سوچ ہے کہ وزیر اعلی وزیر اعلی ہوتا ہے، چاہے کوئٹہ میں رہے یا اسلام آباد میں۔)
بلوچستان سے فوج بلا لی گئی، پتہ نہیں کس مصلحت کے تحت، جبکہ ماضی میں ہر یورش فوجی کاروائی سے ہی دبائی گئی۔ ملک دشمنوں کے خلاف ساری کاروائی ایف۔ سی۔ (فرنٹیئر کانسٹیبلری) کے ذمہ ہے۔ وہ دہشت گردوں کو پکڑ لے تو بھی ان کے خلاف کچھ کر نہیں سکتی۔ تفتیش پولیس کا اور سزا دینا عدالتوں کا کام ہوتا ہے لیکن ان دونوں اداروں کا وجود ہی نہیں۔ صدر پرویز مشرف نے پولیس کا دائرہ کار 5 فی صد رقبہ سے بڑھا کر 100 فی صد کر دیا لیکن اسلم رئیسانی نے اسے ختم کر دیا ہے۔ اب کوئٹہ کے علاقہ کو چھوڑ کر لیویز کا پھر سے راج ہے، جو سرداروں کی بھرتی کردہ ہوتی ہے جبکہ وفاقی حکومت اس کے اخراجات دیتی ہیں۔
"لاپتہ افراد" ہیں کون؟ میڈیا پتہ کرنے کی کوشش نہیں کرتا کہ یہ لوگ کون ہیں، ان کا اور ان کے کنبوں کا کیا پس منظر ہے، ان کی آمدنی کہاں سے ہوتی ہے۔ اکثر کے تو پتے بھی معلوم نہیں۔ صرف تعداد بڑھانے کے لیئے ان کے نام لکھا دیئے گئے۔ جن کے پتے معلوم ہوئے وہ نام نہاد بلوچستان لبریشن آرمی میں شامل ہو چکے تھے، افغانستان جا چکے تھے، کراچی میں کاروبار کرتے تھے یا ویسے ہی روپوش تھے۔ جو امریکی اور ہندوستانی ایجنٹ مقابلہ میں ہلاک ہو جاتے ہیں وہ "لاپتہ" کے کھاتے میں ڈال دیئے جاتے ہیں۔ کچھ واقعی تحویل میں بتائے جاتے ہیں، ان سے تفتیش ہو رہی ہے۔ اگر مجرم ہونے کا ثبوت مل بھی جائے تو صوبائی حکومت نہ اپنی تحویل میں لیتی ہے، نہ مقدمہ چلاتی ہے۔ در حقیقت یہ وہ افراد ہیں، جو امریکی سرپرستی میں علیحدگی کے لیئے دہشت گردی کرتے ہیں اور جنھیں رہا کرانے کے لیئے امریکہ بے چین رہتا ہے۔ امریکہ سے امداد اور ہندوستان سے تربیت لے کر کرایہ کے لوگوں سے دہشت گردی کرائی جا رہی ہے۔ امرکی ایجنٹوں کو 500 ڈالر (تقریبا 50 ہزار روپے) مہینہ تک وظیفہ ملتا ہے۔ بگتی، مری، مینگل وغیرہ چند قبائل کے سردار ملک سے باہر بیٹھے ہیں۔ جو یہاں ہیں وہ بھی امریکی سرپرستی میں عیش کر رہے ہیں۔ ایک زین بگتی جب افغانستان کی طرف سے اسلحہ لاتے ہوئے پکڑا گیا تو اس نے پہلا فون امریکی سفارت خانہ کو کیا۔ شمالی آئرلینڈ میں جب علیحدگی کی تحریک زوروں پر تھی تو بی۔ بی۔ سی۔ کو اس کے لیڈر جیری ایڈمز کا بیان اس کی اپنی آواز میں سنانے کی اجازت نہ تھی۔ یہاں علیحدگی پسند سرداروں کے گھنٹے گھنٹے کے انٹرویو نشر ہوتے ہیں۔
جو لوگ سمجھتے ہیں کہ میڈیا میں "لاپتہ افراد" کے لیئے ہونے والا پراپیگنڈہ صحیح ہے، ان سے زیادہ بھولا کوئی نہیں۔ صحافیوں کو ڈالر ملتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ شور مچائو، چینل اور اخبار مالکوں کو ڈالر ملتے ہیں کہ علیحدگی پسندوں کے بار بار انٹرویو کرائو، غیرسرکاری تنظیموں کو ڈالر ملتے ہیں کہ مظاہرے کرائو اور دھرنے دو۔ رہی وفاقی حکومت تو اسے ملک دشمنوں کے خلاف کچھ کرنے کی فرصت کہاں۔ رحمان ملک صرف یہ کہہ دیتے ہیں کہ "غیرملکی ہاتھ ملوث ہے۔" اس نامحرم کا نام نہیں لیتے اور نہ اس کا ہاتھ مروڑتے ہیں۔
سپریم  کورٹ کا رویہ بھی حیران کن ہے۔ یا تو اسے حقائق کا علم نہیں یا تجاہل عارفانہ سے کام لیا جا رہا ہے۔ یا پھر سارا جوش و خروش امریکہ کو خوش کرنے کے لیئے ہے۔ فوجی اداروں پر لعن طعن بھی شائد اسی لیئے ہے کہ امریکہ کا ایک بڑا مقصد ہماری فوج کو بدنام کرنا بھی ہے۔
صورت حال یہ ہے کہ میڈیا سچ تلاش نہیں کرتا، عدلیہ سچ سنتی نہیں اور فوج سچ بولتی نہیں کہ حکومت کے لیئے پریشانی پیدا نہ ہو۔ پھر
        خداوندا، ترے یہ سادہ دل بندے کدھر جائیں؟

مزید معلومات کے لیئے امریکی مصنف کا مضمون دیکھیں:
Balochistan: Crossroads of Proxy War
by Eric Draitser

احترام رمضان کا قانون نہ قابل نفاذ تھا، نہ ہے

میرے ایک عزیز دوست کو پڑھنے لکھنے کے سرکاری کام کے لیئے چند دنوں کے لیئے میری مدد کی ضرورت پڑی۔ میں ان کے دفتر جانے لگا۔ مجھے الگ کمرہ دے دیا گیا۔ رمضان کے دن تھے۔ ایک دن ان کا اردلی لنچ بکس اٹھائے میرے کمرہ میں داخل ہوا۔ جونھی اس کی نظر مجھ پر پڑی، الٹے پائوں لوٹ گیا اور باس سے کہا، "سر، اس کمرہ میں حمید صاحب بیٹھے ہیں۔ ان کا تو روزہ ہوتا ہے۔"
باس نے سمجھایا، "ان کا روزہ کھانے پینے کی چیزیں دیکھ کر خراب نہیں ہوتا، نہ ہی وہ دوسروں کو کھاتے پیتے دیکھ کر پریشان ہوتے ہیں۔ اسی لیئے تمھیں وہاں لے جانے کے لیئے کہا تھا۔" تھوڑی دیر میں وہ اور تین چار افسر میرے کمرے میں آ گئے۔ میں بھی ان کے ساتھ بیٹھ گیا۔ وہ کھانا کھاتے رہے اور میں گپ شپ کرتا رہا۔
سیدھی بات تھی کہ کسی کو کھاتے پیتے دیکھ کر میرا دل کیوں خراب ہو؟ جب میں نے سوچ سمجھ کر طے کر لیا کہ سحر سے افطار تک کچھ نہیں کھانا پینا تو پھر میرا فیصلہ کھانے کی چیز یا کسی کو کچھ کھاتے دیکھ کر کیوں کمزور ہو؟ روزہ تو برداشت سکھاتا ہے۔ اگر اتنی بھی برداشت نہیں تو مجھے دوسروں پر نکتہ چینی کی بجائے روزہ رکھنا ہی نہیں چاہیئے۔ اگر کسی ریستوران میں روزہ کے پیچھے کچھ لوگ کھانا کھا رہے ہیں یا کوئی کھانے پینے کی چیزیں خرید کر گھر لے جا رہا ہے تو مجھے کیوں اعتراض ہو؟
روزہ کی طرح نماز بھی فرض ہے۔ اگر کوئی باقاعدگی سے مسجد میں جا کر نماز ادا کرتا ہے لیکن دیکھتا ہے کہ دفتروں، دکانوں اور بازاروں میں لوگ نماز کے لیئے نہیں جا رہے بلکہ بہت سے تو اذان ہوتے ہوئے نہ رکتے ہیں اور نہ ہی خاموشی اختیار کرتے ہیں تو کیا اسے مطالبہ کرنا چاہیئے کہ ان سب کو کوڑے مارے جائیں یا جرمانہ کیا جائے؟ کل کو کوئی کہے کہ جس کی سلوار ٹخنوں سے نیچے اور داڑھی مقررہ لمبائی کی نہ ہو تو اسے سزا دی جائے تو کیا یہ مناسب ہوگا؟ طالبان کے ایک لیڈر نے بعد میں کہا کہ ہم نے عبادات میں بہت سختی کی، جس کے نتیجہ میں لوگوں کی حمائت کھو بیٹھے اور ہماری حکومت کا خاتمہ آسان ہو گیا۔
ضیاء الحق نے سطحی سوچ رکھنے والوں کے مطالبہ پر احترام رمضان کا قانون نافذ کر دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ریستوران اور کھانے پینے کی دکانیں بند ہو گئیں، ان سے وابستہ لاکھوں لوگ ایک مہینہ کے لیئے بے روزگار ہو گئے۔ سارے دن کی بجائے صرف سحر اور افطار کے وقت فروخت سے آمدنی میں کمی پوری کرنے کے لیئے کھانے پینے کی چیزوں کی قیمتیں چڑھ گئیں۔ اس کے باوجود روزہ داروں کی تعداد میں اضافہ نہ ہوا۔ جو کسی شرعی عذر یا کسی اور وجہ سے روزہ نہ رکھ سکتے وہ بدستور دوپہر کو کھانا کھاتے رہے۔ (ہاں، ان کے لیئے مشکل ضرور پیدا ہو گئی۔) دوسری طرف قانون نافذ کرنے کے بہانہ رشوت بڑھ گئی۔ قانون بننے سے پہلے بھِی لوگ رمضان کا احترام کیا کرتے اور سرعام کھانے پینے سے گریز کیا کرتے تھے۔ قانون نے صرف یہ کیا کہ بہت سے لوگوں کے لیئے مشکل پیدا کر دی اور بے شمار کو بے روزگار کر دیا۔
احترام رمضان آرڈیننس کا خلاف آئین ہونا کوئی بات نہیں کیونکہ آئین ہمارا ہی بنایا ہوا ہے اور ہم اس میں جب چاہیں ترمیم کر سکتے ہیں (اور کرتے رہتے ہیں)۔ لیکن قانون کا خلاف اسلام ہونا یقینا تشویش کی بات ہے۔ ہمارے دین میں جبر نہیں۔ ہمیں خوش خلقی سے راہ راست پر لانے کا حکم ہے۔ امام حسن نے دیکھا کہ ایک بدو غلط طریقہ سے وضو کر رہا ہے۔ انھوں نے اسے ڈانٹنے کی بجائے کہا، "آپ بزرگ ہیں۔ آپ کو زیادہ علم ہوگا۔ میں وضو کرتا ہوں۔ اگر کوئی غلطی ہو تو بتا دیں۔" بدو خاموشی سے دیکھتا رہا اور صحیح طریقہ سیکھ لیا۔
احترام رمضان قانون میں ہے کیا؟
آئیں دیکھیں کہ احترام رمضان آرڈینینس کی مختلف دفعات میں کیا گیا ہے۔ (متن نیچے دیا گیا ہے۔)
دفعہ 2 میں "پبلک پلیس" کی تعریف میں ہوٹل ریستوران، کینٹین، گھر، کمرہ، خیمہ، احاطہ، ذیلی سڑک، پل اور ایسی جگہیں، جس تک پبلک کی رسائی ہو، شامل کیا گیا ہے۔ کیا گھر اور کمرہ بھی عام لوگوں کی رسائی کی جگہیں ہو سکتی ہیں؟
دفعہ 3 کے مطابق روزہ کے اوقات میں کسی شخص کے پبلک پلیس میں کھانے پینے ہی نہیں، سگرٹ پینے پر بھی پابندی ہوگی، بشرطیکہ شریعت کے مطابق اس پر روزہ فرض ہو۔ کون طے کرے گا کہ کھانے پینے والے پر روزہ فرض ہے یا نہیں؟ کوئی وضاحت نہیں۔
دفعہ 5 کے تحت ہسپتال، ریلوے سٹیشن، ریل گاڑی، ہوائی اڈہ، ہوائی جہاز، بندرگاہ اور بس اڈہ پر پابندی نہیں ہے۔ کیا بس، ویگن، یا کسی اور موٹر گاڑی میں کھانے پینے کی اجازت ہے؟ وضاحت نہیں۔
دفعہ 6 کے تحت سینما، تھیئٹر اور ان جیسی جگہیں افطار کے بعد تین گھنٹے تک بند رہیں گی۔ کیا اس طرح فلم یا ڈرامہ دیکھنے والے تراویح کے لیئے چلے جائیں گے؟ اگر وہ ٹیلی ویژن کے سامنے بیٹھ جائیں تو کیا تمام چینل تین گھنٹے  کے لیئے بند کر دیئے جائِیں؟
دفعہ 7 کے تحت اگر شک ہو کہ قانون کی خلاف ورزی ہو رہی ہے توپبلک پلیس  میں داخل ہونے اور خلاف ورزی کرنے والوں کو گرفتار کرنے کی اجازت ان افراد کو ہے: میجسٹریٹ، ضلع کونسل، میونسپل کمیٹی یا ٹائون کمیٹی کا چیئرمین، میونسپل کارپوریشن کا میئر، زکات و عشر کمیٹی کا چیئرمین یا رکن۔ انتظامی میجسٹریٹ کا عہدہ ختم ہونے کے بعد اب جوڈیشنل میجسٹریٹ صرف عدالتی کاروائی کر سکتا ہے۔ اسے موقع پر کسی کو گرفتار کرنے کا اختیار نہیں۔ مقامی حکومتوں کے نظام کے 2001 میں نافذ ہونے کے بعد سے دوسرے تمام عہدے ختم ہو چکے ہیں۔ صرف زکات و عشر کی کمیٹیاں رہ گئی ہیں۔ اب گرفتاری کا اختیار کس کے پاس ہے؟
دفعہ 8 کے تحت کوئی عدالت کاروائی نہیں کرے گی جب تک گرفتاری کا اختیار رکھنے والا تحریری شکائت نہ کرے۔
حیران کن امر یہ ہے کہ پولیس کو کسی پبلک پلیس میں داخل ہونے یا کسی کو گرفتار کرنے کا اختیار نہیں دیا گیا۔ جس تھانہ میں گرفتاری کا اختیار رکھنے والا کسی خلاف ورزی کرنے والے کو لے کر آئے۔ وہاں کا صرف تھانیدار عدالت میں 24 گھنٹے میں شکایت درج کرا سکتا ہے۔
دفعہ 9(2) میں کہا گیا ہے کہ دفعہ 5 کے تحت کینٹین، ریستوران اور ڈائیننگ کار میں روزہ کے اوقات میں کھانے پینے کی اشیا اور سگرٹ دینے کی اجازت ہے، بشرطیکہ پردہ کا انتظام کیا گیا ہو تاکہ لوگوں کی نظر نہ پڑے۔ جب پردہ کی اجازت ہے تو پابندی کا مطلب؟
کیا یہ قانون قرآن و سنت کے مطابق ہے؟
آئین کی دفعہ 227 کے مطابق تمام موجودہ قوانین کو اسلامی تعلیمات کے مطابق بنایا جائے گا، جیسا کہ قرآن مجید اور سنت میں صراحت کی گئی ہے۔ اور نہ ہی ان کے خلاف کوئی نیا قانون بنایا جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ کیا اسلامی نظریاتی کونسل سے اس آرڈینینس کی منظوری لی گئی، نافذ کرنے سے پہلے یا بعد میں؟ کیا یہ اسلامی تعلیمات کے مطابق ہے؟ اس بارے میں عدالت سے رجوع کرنا ہوگا۔
آرڈیننس کا جائزہ لینے سے واضح ہو جاتا ہے کہ قانون بے معنی ہو چکا ہے۔ اس میں وضاحت نہیں کہ کون طے کرے گا کہ روزہ رکھنا کس پر فرض ہے، گھر اور کمرہ میں کھانے پینے پر پابندی ہو، سینما اور تھیئٹر پر افطار کے بعد بھی تین گھنٹے بند رکھنے کی پابندی ہو، گرفتاری کا اختیار رکھنے والے تمام عہدیدار ختم ہو چکے ہوں، اس کا نفاذ موجودہ شکل میں بھی ممکن نہیں۔ تو کیوں نہ اسے منسوخ کر دیا جائے؟ اگر حکومت خود نہ کرے تو عدالت سے رجوع کر کے ختم کرایا جا سکتا ہے۔
دین کے نام پر سیاست کرنے والے کچھ لوگ شور مچائیں گے، مظاہرے کریں گے لیکن اس کی پروا نہیں کرنی چاہیئے۔ یقین رکھیں لوگ پھر بھی رمضان کا احترام کرتے رہیں گے، جیسے صدیوں سے کرتے چلے آ رہے ہیں۔ صرف یہ ہوگا کہ بہت سے لوگوں کی پریشانی ختم ہو جائے گی اور بہت سوں کا روزگار چلتا رہے گا۔ سب سے بڑی بات یہ ہوگی کہ منافقت ختم ہو جائے گی۔ اسلام میں منافقت حرام ہے، فرض نہیں۔

THE EHTRAM-E-RAMAZAN ORDINANCE, 1981
(XXIII OF 1981)
CONTENTS
1. Short title, extent and commencement
2. Definition
3. Prohibition of eating, etc, in public places
4. Prohibition of serving eatables in certain public places
5. Exemptions
6. Cinema-houses, theatres, etc., to remain closed during Ramazan
7. Power to enter and arrest
8. Cognizance of offences and procedure
9. Power to make rules
10. Ordinance to override other laws
TEXT THE EHTRAM-E-RAMAZAN ORDINANCE, 1981
(XXIII OF 1981)
[25th June, 1981]
An Ordinance
to provide for measures observe the sanctity of the month of Ramazan
Preamble.— Whereas, in view of the tenets of Islam, it is necessary to provide for measures to observe the sanctity of the month of Ramazan;
And whereas the President is satisfied that circumstance exist which render it necessary to take immediate action;
Now, therefore, in exercise of the powers conferred by Article 89 of the Constitution, read the Provisional Constitution Order, 1981 (C.M.L.A. Order No. 1 of 1981), the President is pleased to make and promulgate the following Ordinance:-
1. Short title, extent and commencement.— 1) This Ordinance may be called the Ehtrame-Ramazan Ordinance, 1981.
(2) It extends to the whole of Pakistan.
(3) It shall come into force at once.
2. Definition.— In this Ordinance, unless there is anything repugnant in the subject or context, “public place” include any hotel, restaurant, canteen, house, room, tent, enclosures, road lane, bridge or other place to which the public have access.
3. Prohibition of eating, etc, in public places.— (1) No person who, according to the tenets of Islam, is under an obligation to fast shall eat, drink or smoke in a public place during fasting hours in the month of Ramazan.
(2) Whoever contravenes the provisions of sub-section (1) shall be punishable with simple imprisonment for a term which may extend to three months, or with fine which may extend to five hundred rupees, or with both.
4. Prohibition of serving eatables in certain public places.— No proprietor, manager, servant, or other person in charge of a hotel, restaurant or canteen, or other public place, shall knowingly and willfully offers or serve or cause to be offered or served any eatable during fasting hours in the month of Ramazan to any person who, according to the tenets of Islam, is under an obligation to fast.
(2) Whoever contravenes the provisions of sub-section (1) shall be punishable with simple imprisonment for a ten which may extend to three months, or with fine which may extend to five hundred rupees, or with both.
5. Exemptions.— Nothing contained in section 4 shall apply in respect of --
(a) a canteen or kitchen maintained in a hospital for serving food to patient;
1[(b) A restaurant, or canteen, stall or wheel-barrow, or the holder of vending contract, within the premises of a railway station or in a train or a restaurant or canteen within the premises of an airport, seaport, or bus stand or in an aircraft;]
(c) A kitchen or dining-car of a train; or
(d) a kitchen or canteen meant for children within the premises of a primary school.
6. Cinema-houses, theatres, etc., to remain closed during Ramazan.—
(1) All cinema-houses, theatres and similar other establishments or institutions shall remain closed during the month of Ramazan from the time of sunset to the expiration of three hours thereafter.
(2) If the proprietor, manager, servant or other person in charge of a cinema-house, theatre or similar other establishment or institution contravenes the provisions of sub section (1), he shall be 1 Clause (b) Subs. by the Ehtram-e-Ramzan (Amendment), XXIX of 1981. punishable with imprisonment for a term which may extend to six months, or with fine which may extend to five thousand rupees or with both.
7. Power to enter and arrest.— 1)any Magistrate, the Chairman of a District Council or a Municipal Committee or a Town Committee, the Mayor of a Municipal Corporation, or the Chairman or a member of a District Zakat and Ushr Committee has reason to believe that any offence punishable under may enter the public place and arrest such person.
(2) Where the Magistrate arresting any person under sub-section. (1) is for the time being empowered to try in a summary way the offences specified in sub-section (1) of section 260 of the Code of Criminal Procedure, 1898 (Act V of 1898), such Magistrate may try such person at the place where lie is arrested in accordance with the provisions contained in sections 262 to 265 of the said Code.
8. Cognizance of offences and procedure.— (1) Save as provided in sub section (2) of section 7 no court shall take cognizance of any offence punishable under this Ordinance except on a complaint in writing made by a person authorized to arrest under sub section (1) of that section or by the officer in charge of the police station in whose jurisdiction the offence is alleged to have been committed.
(2) Any Magistrate empowered for the time being to try in a summary way the offences specified in sub section (1) of section 260 of the Code of Criminal Procedure, 1898 (Act V of 1898) may try any offence punishable under the Ordinance in accordance with the provisions contained in sections 262 to 265 of the said Code.
(3) The officer in charge of the police station to which a person arrested is forwarded under sub section (3) of section 7 shall make a complain to a Magistrate within twenty four hours to the time on which such person is brought to the police station.
(4) The trial of an offence punishable under this Ordinance shall be taken up on a priority basis and shall be concluded as expeditiously as may be administratively possible.
9. Power to make rules.— (1) The Federal Government may make rules for carrying out the purposes of this Ordinance.
(2) In particular and without prejudice to the generality of the foregoing provisions such rules may provide that in a canteen restaurant or dining car referred to in clause (1), (b), (c) or (d) of section 5 eatables or articles of smoking shall only be served at a place protected form public view by means of a curtain or otherwise and specify the classes of persons who may be admitted to any such canteen, restaurant, or dining car during fasting hours in the month of Ramazan.
(3) A person contravening any rule made under sub section (1) shall be deemed to be guilty of an offence punishable under section 4 and shall be punishable accordingly.
10. Ordinance to override other laws.— The provisions of this Ordinance shall have effect،notwithstanding anything contained in any other law for the time being in force.